منگل، 3 جون، 2014

معاف کیجیے صاحب




معاف کیجیے گا صاحب، لیکن ہمارے معاشرے کی روایت یہی ہے۔۔۔۔  زندہ شخص کو یہاں پہچان ملنا ناممکن ہے جناب۔۔

دل ایسا دکھا ہے کہ کئی برس بعد قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔۔

کسی شخص کو ایک انسان کے طور پر پہچاننا ہم نے سیکھا ہی کب ہے۔۔ ہم نے تو مختلف خانے بنا کر ہر کسی کو کسی ایک ہی خانے میں مقید کر رکھا ہے اور بحیثیت مجموعی انسانی اوصاف کی بنا پر شناخت کے تو ہم قائل ہی نہیں ہیں۔ ہمارے لیے کوئی کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہے، کوئی کسی خاص مسلک کا نمائندہ ہے، کوئی کسی مخصوص نظریے کا علمبردار ہے، بس اگر نہیں ہے تو اس معاشرے کا ایک فرد اور ایک انسان نہیں ہے۔

اپنی تمام تر وابستگیوں سے بالاتر ہو کر دیکھیں تو یہ ہم نے کیسا معاشرہ تشکیل دیا ہے۔۔۔ کیسے کیسے ہیرے اور قیمتی افراد ہمارے درمیان وقت گزارتے ہیں لیکن ہم اپنی اپنی انا کی تسکین میں مصروف لوگ کسی کو کوئی مقام دینے کے لیے کہاں تیار ہوتے ہیں۔۔ پھر جب کوئی رخصت ہو جاتا ہے تو سب کہنے لگتے ہیں کہ شہادت اس کے ماتھے پر لکھی ہوئی تھی اور اس جیسے دلیر اور بہادر سے یہی توقع کی جا سکتی تھی۔۔ ہاں یہ سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں تھا تو  پھر اس کی زندگی میں ان سب آنکھوں سے پنہاں کیوں رہا جو بظاہر گوشت پوست کے پردے چیر کر نیتوں کے حال تک جاننے کا دعوی رکھتی ہیں۔ یا معاشرے کے ہم جیسے بزرجمہروں کے قبضۂ ادراک میں کیوں نہیں آ سکا جن کی بصیرت پوری دنیا کے حالات اور مسائل کا احاطہ کیے رکھتی ہے۔

نصر اللہ شجیع کے مزاج، کردار کی بلندی اور اعلی اخلاق کے لاتعداد گواہ مل جائیں گے۔ تیس سال کی عمر میں سندھ اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر ببنے والا وہ شخص اگر ایک ماہر تعلیم، مہربان اور قابل استاد، بہترین منتظم، اپنے ذمہ داری پوری کرنے کے لیے جان تک دینے کا جذبہ رکھنے والا، ایک مثالی سیاسی کارکن اور معاشرے کا خیرخواہ اور بہترین اثاثہ تھا تو معاشرے پر یہ سب انکشافات اس کے جانے کے بعد ہی کیوں ہوئے ہیں۔ کیا اس کی اچھائی سے صرف ایک جماعت ہی مستفید ہو رہی تھی۔ کیا اس معاشرے میں مجموعی طور پر اچھائی کے فروغ میں اس کا کوئی حصہ  نہیں تھا۔ یا کسی کو انسانی اور معاشرتی سطح پر قدر اور خراج تحسین کا مستحق صرف اس کے رخصت ہونے کے بعد ہی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔۔۔
یا خدا، زندوں کی بھی قدر کرنے اور ان کے اعلی اوصاف کا اعتراف کرنے کی توفیق عطا فرما

اس تلخ نوائی پر معذرت خواہ ہیں صاحب لیکن دل بہت دکھا ہوا ہے

2 تبصرے:

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'