منگل، 17 نومبر، 2015

یہ جھنڈا گردی


گویا یہ طے ہو چکا ہے کہ آپ کو ان دو حیثیتوں میں سے ایک تو طوعا یا کرھا اختیار کرنی ہی پڑے گی؟
اگر آپ نے اپنی پروفائل تصویر پر مقتولین سے اظہار یکجہتی کے طور پر ان کا پرچم نہیں لگایا تو آپ دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ اور اگر آپ نے ایسا کیا ہے تو آپ کو باقی پوری دنیا میں مسلمانوں کے بہتے لہو پر کوئی افسوس نہیں ہے۔
یہ ہے سوشل میڈیا کی تازہ ترین جبری تقسیم اور ایک خودساختہ فرضی تاثر جس کی بنیاد پر ہوائی قلعے تعمیر کر کے سنگ باری شروع کر دی گئی ہے۔ جس کو اس حد تک مبالغہ آمیز بنایا گیا اور فیصلہ کن عامل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ اچھے خاصے سنجیدہ اور معقول لوگ اس رو میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔


چنانچہ اگر آپ نے دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ اس کے پس منظر، اسباب اور اس کے سدباب کے حوالے سے کوئی سوال اٹھایا ہے، کسی شبہ کا اظہار کر دیا ہے یا دوسروں کے نزدیک ناپسندیدہ حقائق پر بات کی ہے تو آپ یقینا قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بنا پر قابل گردن زدنی ٹھہریں گے۔ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست آپ کے نام کے ساتھ جاری کر دی جائے گی تاکہ عوام کے وسیع تر مفاد میں سند رہے اور بوقت ضرورت سب کے کام آ سکے ۔ دوسری طرف اگر آپ نے حالیہ سانحہ پر صرف دکھ کا اظہار کیا ہے اور کسی اگر مگر کے بغیر مذمتی بیان جاری کیا ہے تو آپ کو چن چن کر پرانے واقعات یاد دلائیں جائیں گے، آپ کی ماضی سرگرمیوں کی پوری تاریخ چھان ماری جائے گی، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جب دنیا میں فلاں اور فلاں کچھ ہو رہا تھا تو تم آئس کریم کھا رہے تھے یا چھٹیاں مناتے ہوئے سیلفیاں بنا رہے تھے۔

کیا اصحاب جبہ و دستار اور کیا حاملین پینٹ کوٹ، سب اپنی دوربینیں اور خوردبینیں لے کر سوشل میڈیا کے کونوں کھدروں اور مضافات تک میں دیوانہ وار گھوم رہے ہیں کہ کہاں کوئی بھولا بھٹکا اور اس سارے شورشرابے سے بےنیاز کوئی راہرو ملے اور یہ اپنے تمغوں میں ایک کا اضافہ کر سکیں۔
یہ درحقیقت ہماری اسی فکری کوتاہ نظری کی توسیع اور اظہار ہے جس کے تحت ہم اپنے مخاطبین کو چند خود ساختہ سانچوں میں ہی رکھنے پر مصر ہیں۔ یہ تنگ نظر ملا کا خانہ ہے، یہ دہشت گرد کا خانہ ہے، یہ فلاں اور فلاں کا خانہ ہے۔ اپنی ہی بنائی ہوئی اس حدبندی کے ہم خود اس قدر اسیر ہو چکے ہیں کہ ہماری سوچ ان دائروں سے باہر نکل ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ ہمارے لیے لازم ٹھہرتا ہے کہ ہمارا واسطہ جس سے بھی پیش آئے، پہلے تو انہی القابات میں سے لازما کوئی ایک اس پر چسپاں کیا جائے، انہی خانوں میں سے کسی ایک میں اسے گھسیڑا جائے تاکہ پھر اسی سے متعلق پہلے سے تیار شدہ احکامات اور فتاوی کی پوٹلی کھولی جا سکے خواہ یہ سارا عمل کسی اور معاملے میں ہمارے ہی کسی موقف سے متصادم ہو۔
ہماری وابستگیوں سے قطع نظر، ہماری سوچ اور فہم کے لیے اس نکتہ کا ادراک اور اس کا قابل قبول ہونا قریب قریب ناممکن ہے کہ نظریاتی اور تجزیاتی جہت اس کینوس سے وسیع تر اور مختلف  بھی ہو سکتی ہے جس پر ہم اپنی دانست میں دنیا بھر کا منظر نامہ سجائے یٹھے ہیں۔ چلیے، یہاں تک بھی الزام اپنی فکری کم نگاہی اور بنجرپن کے سر ڈال کر ہم بری ہو سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہماری فیس بکی  وحشت کو چین نہیں ملتا تو ضروری ہو جاتا ہےکہ کوئی خودساختہ محاذ تخلیق کیا جائے۔ اپنی مرضی سے ظالم اور مظلوم کے لیے کسوٹی بنائی جائے اور پھر زبردستی لوگوں کو اس طرف یا اس طرف کے مخمصے میں ڈال دیا جائے۔ اس کے لیے اکثر تجاہل عارفانہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انجان بننا پڑتا ہے۔ لوگوں کو الجھانے اور اصل نکتہ سے توجہ ہٹانے کے لیے جزوی اہمیت کے موضوعات کو شہ سرخیوں میں لانا پڑتا ہے۔ اتنی گرد اڑتی ہے تو تب کہیں جا کر اصل منظر دھندلایا جاتا ہے اور اپنی مرضی کی منظرکشی کا موقع ہاتھ آتا ہے۔  

یہ سب ہو کیا رہا ہے صاحب؟ کیا سوشل میڈیا کی اس مجازی دنیا کی علامات اور اشارے کنایےاس قدر فیصلہ کن ہو جائیں گے کہ لمحہ بھر میں ہم ان لوگوں پر کوئی نہ کوئی حکم لگا سکیں، جن سے زندگی بھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی، جن کے ذہنی رجحان اور نظریات سے ہماری آگاہی بس چند تبصروں تک محدود ہے؟ 
دانشوری کی ایسی دکانداری کے دوران اگر آپ کسی ٹھوس مکالمے یا پیچيدہ حقائق کی گتھیاں سلجھنے کی توقع رکھتے ہیں تو انور مسعود صاحب نے ایسے حالات کے لیے ہی عرض کیا تھا۔۔۔

یہی انداز تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'