اتوار، 20 جولائی، 2014

جذبوں کی سوداگری

پھر یوں ہوا کہ ہر طرف کھیل کے میدان سج گئے، رنگ، قہقہے اور روشنیاں بکھرنے لگیں، میں نے بھی دنیا بھر کے کھلاڑیوں کی شان میں قصیدے پڑھے اور ان کے ملکوں کے جھنڈے اٹھائے۔ ان کے لیے نعرے لگائے اور تالیاں پیٹیں۔
کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ کھیل کی کوئی سرحد نہیں ہوتی

پھر دنیا بھر کے فنکار اپنا اپنا فن لے کر آئے۔ آواز اور تصویر کے جادو اپنا رنگ دکھانے لگے۔ میں نے ان کا بھرپور استقبال کیا اور ان کے ہر ایکٹ پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے، مشرق و مغرب سے آنے والی دھنوں پر رقص کیا اور تال سے تال ملائی۔
کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ فن اور فنکار کا کوئی مذہب اور کوئی ملک نہیں ہوتا۔

پھرہر زبان اور ہر ملک کے ادیبوں اور شاعروں کے نام میرے سامنے رکھے گئے۔ میں نے یورپ، جرمنی، روس، لاطینی امریکہ، فرانس اور باقی دنیا کے لکھاریوں کی تخلیقات کو اپنی زبان میں منتقل کیا اور ان کی نظمیں اور کہانیاں پڑھ پڑھ کر سنائیں۔ عالمی ادبی کانفرنسیں منعقد کیں اور ان میں شرکت لیے دنیا بھر کی خاک چھانی۔ میں نے ہزاروں میل دور مرنے والے قلمکاوں کا سوگ منایا۔
کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ زبان، اظہار اور ادب کو کسی سرحد کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔

اب مجھ پر ایک سرشاری کی کیفیت طاری ہو گئی۔ میں نے سوچا یہ کیسے عجیب اور عظیم لوگ ہیں۔ جن کی بدولت ہمیشہ کا ایک خواب حقیقت بننے والا ہے اور یہ دنیا ایک مثالی جگہ بننے کے لیے تیار ہے کیونکہ اب ہر جذبے نے عالمگیر حیثییت حاصل کر لی ہے اور سرحدوں کی قید ختم ہو چکی ہے۔

پھر ایک دن غزہ میں بیسیوں معصوم بچوں اور عورتوں کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔ ان کی کٹی پھٹی لاشوں کے عکس پہنچے تو میں تیار ہوا کہ اب مجھے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے بلایا جائے گا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ خون اور درد تو اپنی سرحد عبور نہیں کر سکتے اور ان بچوں اور عورتوں کی آنکھوں میں پتھرا جانے والا کرب اب باؤنڈری لائن کے اس پار نہیں آ سکتا۔ اور جذبہ صرف وہی عالمگیر بن سکتا ہے جسے ہم اذن عطا کریں گے۔

میں نے فلسطینی بچے کے لیے نظم لکھنا چاہی لیکن انہوں نے کہا کہ ادب کو متنازعہ معاملات میں نہیں گھسیٹا جا سکتا۔

میں نے احتجاج کے لیے نکلنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ کھیل، فن اور ادب کی حیثییت مختلف ہے۔ یہ ایک پرتشدد معاملہ ہے اور اس کو عالمگیر بننے کی اجازت ہم نہیں دے سکتے۔

آخر میں نے سب سے چھپ کر ایک دعا مانگی اور ہواؤں کو امین بنا کر اسے فلسطین کی طرف روانہ کر دیا۔

6 تبصرے:

  1. بہت اعلی صہیب بھائی

    جواب دیںحذف کریں
  2. عالمیت اور عالمگیریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ لوگ ہی شدید تعصب کا شکار ہیں ۔ ۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. درست کہا۔ اس تحریر میں اسی تضاد کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

      حذف کریں
  3. جوابات
    1. بہت شکریہ. ہر طرف انہی تلخ حقیقتوں کا سامنا ہے.

      حذف کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'