جمعرات، 10 جولائی، 2014

چائے کی پیالی میں طوفان

اب بات 'رمضان بمقابلہ رمدان' اور 'خدا حافظ بمقابلہ اللہ حافظ' کی دانشوری کی سالانہ تکرار پر ہی آ ٹھہری ہے تو ہمارے لیے ان تمام دانشور حضرات کی پاکستانیت اور پاکستانی ثقافت اور روایات سے وابستگی قابل رشک ہے جو اس رواج پر فکرمند اور بے چین ہوئے پھرتے ہیں لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے یہ تمام اہل علم حضرات و خواتین اپنی ہی قومی زبان کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور قومیت کا رونا رونے کے لیے ایک غیرملکی زبان کو منتخب کیا جاتا ہے۔ [ویسے مزے کی بات یہ کہ جس زبان میں یہ سب واویلا کیا جاتا ہے خوداس زبان والے بھی رمضان کو 'رمدان' ہی لکھتے ہیں۔]

یہ خوب رہی صاحب، آپ خود اپنی تمام تر افلاطونیت انگریزی میں جھاڑیں اور نزلہ گرے ان پر جو محض چند الفاظ کو عربی تلفظ سے ادا کر رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں!!


حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے گردو پیش میں کوئی فرد ایسا نہیں پایا جو رمضان کو 'رمدان' کہنے پر اصرار کر رہا ہو اور اپنے موقف پر اتنی سختی سے ڈٹا ہوا ہو کہ پاکستانی ثقافت، روایات، خواتین کے حقوق اور تمام تر ترقی خطرے میں پڑ گئی ہو۔ یہ محض رائی کو پہاڑ بنانے والی بات ہے۔ ایسے سب مضامین کا جائزہ لیں تو صرف رمضان میں ہی اس موضوع پر دانشوری بیدار ہوتی ہے، اس بے مقصد بحث کو ہوا بنا کر پیش کرتی ہے اور باقی سارا سال محو خواب رہتی ہے۔

جب ہمارے ہاں ابو کو پاپا، پوپس، ڈیڈی اور ڈیڈز بنا دیا گیا اور امی ماما اور مومز بن گئیں، تب تو کسی نے ایسی دہائیاں نہیں دیں۔ اور نہ ہی اس وقت یہ بین ڈالے جاتے ہیں جب ہمارے بچے بچے کی زبان پر شکتی، دھیرج، رام، شانتی، وشواس جیسے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں، ہمارے نوجوان روزمرہ گفتگو میں بھی لہجہ بدل بدل کر ہندی فلموں کے مکالموں کی نقل اتارتے ہیں اور ہماری خواتین ماتھے پر بندیا لگا، ویسا لباس پہن کر حقیقی زندگی میں سٹار پلس کے ڈراموں کی نقالی کرتی ہیں۔ یہ چیخ پکار اس وقت بھی سامنے نہیں آتی جب ستمبر کو سیپٹیمبر کہا جاتا ہے۔ آپ کم سے کم اتنی برداشت تو پیدا کر لیں جتنا مظاہرہ اس طبقے نے کیا ہے جس پر آپ تنقید کے تیر برسانے میں مصروف ہیں۔

پھر عوام الناس کی پذیرائی حاصل کرنے کے لیے اپنے الفاظ میں جذباتیت شامل کی جاتی ہے اور مذہب کا رونا رویا جاتا ہے کہ پاکستان میں تو اسلام عرب دنیا سے نہیں بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں کے رستے پہنچا ہے اور یہ کہ اللہ حافظ کہنے سے غیرمسلموں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ پھر آنکھوں میں آنسو بھر کے پوچھا جاتا ہے کہ اب 'رمدان' اور 'اللہ حافظ' کے رواج پا جانے کے بعد اگلا مرحلہ کیا خواتین کی ڈرائیونگ اور ووٹ ڈالنے پر پابندی کا ہو گا؟ اور کیا اب ہمیں گھروں کو خیرباد کہہ کر صحراؤں میں خیمے لگانے ہوں گے اور اونٹ کی سواری کرنا پڑے گی؟؟

یہ ہے وہ اصل غبار جو چند الفاظ کی ادائيگی اور تلفظ پر اعتراض کی آڑ میں نکالا جا رہا ہے۔

اتنے بھولے آپ بھی نہیں صاحب۔ آپ بھی خوب جانتے ہیں جس طرح یہاں انگریزی کی تدریس وسیع پیمانے پر کی جاتی ہے اور انگریزی تلفظ یا تحریر و تقریر میں انگریزی کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا اسی طرح یہاں لاتعداد لوگ ابتدائی قرآنی تعلیم بھی مدارس میں یا گھروں میں اساتذہ سے حاصل کرتے ہیں اور جب بچہ قاعدہ کا پہلا صفحہ اور حروف کے مخارج سیکھتا ہےتو سب سے زیادہ وقت 'ض' کی صحیح ادائیگی کی مشق پر ہی صرف ہوتا ہے۔ اس لیے یہ تلفظ یہاں کے معاشرے کے لیے بالکل اجنبی بھی نہیں ہے جیسا کہ آپ ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والے یہ افراد بھی ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔ غیرمسلموں کے حقوق پورا کرنے کے لیے بھی خدا حافظ کہنا ضروری نہیں بلکہ اس شعور کی ضرورت ہے جو انسان کو بطور انسان پہچان سکے۔ اللہ حافظ کہنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ اطمینان رکھیے اور چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش نہ کیجیے۔ آپ جیسے دانشور ہر سال رمضان کے موقع پر ہی اس مسئلے کو اٹھاتے ہیں اور بعد میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ بھئی آخر ایک گرما گرم موضوع دستیاب ہے تو اس پر ہاتھ صاف کیے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے۔

زبان کا ارتقاء ایک خودکار عمل ہے اور اس میں حصہ عوام ہی ڈالتے ہیں۔ انگریزی ہو یا ترکی، ہندی ہو یا عربی، کوئی لفظ اگر معاشرہ قبول کر لے تو آپ کا رونا دھونا اسے روک نہیں سکتا اور اگر کوئی لفظ معاشرے کے مزاج کے خلاف ہو تو آپ لاکھ کوشش کر لیں اس کو روزمرہ کا حصہ نہیں بنا سکتے۔ جیسے کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے متعلقہ اصطلاحات اور آلات کے لیے ہمارے ہاں اردو میں بھی انگریزی الفاظ ہی بولے اور لکھے جاتے ہیں اور کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔ اور حیرت ہے کہ اس پر تو آپ بھی مطمئن نظر آتے ہیں۔

آخر میں عرض کریں کہ زبان خواہ انگریزی ہو، ہندی یا عربی ہو، عوام الناس کے لیے سب ہی غیرملکی زبانیں ہیں۔ آپ اپنی ہی دانشوری کے خود پیروکار بنیے اور تمام کے بارے میں یکساں رویہ اپنائیے۔ یہ فکر نہ کیجیے کہ کون رمضان یا رمدان کہہ رہا ہے۔ کون خدا حافظ کہہ رہا ہے اور کون اللہ حافظ۔۔ یہ فیصلہ آپ عوام الناس پر چھوڑ دیجیے اور اگر تلقین اور نصیحت مطلوب ہے تو تلفظ سے بڑھ کر روزے کے مقصد اور روح کو اپنا موضوع بنائیے۔

ہماری ثقافت اور روایات کو خطرہ 'رمدان' اور 'اللہ حافظ' کہنے سے نہیں ہے بلکہ اس لمحے سے ہے جب یہاں اولڈ ہومز کی ضرورت محسوس ہونے لگے ۔ اور جب کوئی بچہ یہ سوال کرے کہ سات پھیرے لیے بغیر یہ شادی کس طرح مکمل ہو گئی؟

معاف رکھیے ہمیں اپنی دانشوری سے۔۔۔

3 تبصرے:

  1. آپ نے درست نشاندہی کی ہے ۔ کمال یہ ہے کہ ثقافت اور حقوق کا رونا رونے والے یہ خواتین و حضرات شاید یہ بھی نہیں جانتے کیا ہوتی ہے اور حقوق کس بلا کا نام ہے ورنہ کم از کم ثقافت و حقوق کا اطلاق اپنے آپ پر کرتے ۔ ان کی ناکام کوشش صرف دوسروں کو متاءثر کرنے کی ہوتی ہے
    آپ نے زبان کی ارتقاء کا بھی درست طریقہ بتایا ہے ۔ میں نے اُردو کی ارتقاء کی مختصر تاریخ لکھی تو ایسے چند لوگ ثیں بجبیں ہوئے ۔ ”پنابی کوئی زبان نہیں “۔ ”ڈرتے ڈرتے“ لکھا تو مجھ پر یلغار ہوئی
    http://www.theajmals.com/blog/2009/11/05
    http://www.theajmals.com/blog/2012/06/22
    مجبور ہو کر مجھے تفصیل لکھنا پڑی
    http://www.theajmals.com/blog/2014/05/01

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. افتخار صاحب، تبصرہ کے لیے بہت شکریہ۔ آپ جیسے فرد کے یہ الفاظ بہت حوصلہ افزا ہیں۔
      میری تحریر میں زیر بحث موضوع کو ہر سال رمضان کی آمد کے موقع پر اس طرح اچھالا جاتا ہے جیسے پاکستان کی ترقی صرف اور صرف انہی چند الفاظ کی وجہ سے رکی ہوئی ہے اور جیسا کہ آپ نے فرمایا، یہ بحث کرنے والے بظاہر دانشور خواتین و حضرات تعصب اور علمی بددیانتی کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔
      آپ کی تحاریر تو ویسے بھی زیرمطالعہ رہتی ہیں لیکن مذکورہ بالا مضامین تو بہت معلوماتی اور تحقیقی ہیں۔
      شکریہ

      حذف کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'