منگل، 24 جون، 2014

جان کی امان پائیں تو عرض کریں

جان کی امان پائیں تو کچھ عرض کریں حضور

آپ کی دانشوری کی دکان تو خوب چمک گئی لیکن اس کی قیمت ایسی لاکھوں آنکھوں کو ادا کرنی پڑی ہے جن میں اب بےنام ویرانی کے سوا کچھ نہیں بچا۔ نہ کوئی خواب، نہ کوئی تمنا۔۔ بس بنجر خواہشوں کا ایک صحرا۔۔۔ 



کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں کرتا لیکن آخر کیا کریں۔۔ جب یہ پتہ چلے کہ مہاجرین چندہ جمع کر رہے ہیں ۔۔ اپنے پیاروں کے علاج معالجہ کے لیے نہیں بلکہ بےگھر ہونے والوں کے قبرستان کی جگہ خریدنے کی غرض سے، کیونکہ مرنے والوں کو دفن کرنا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے، تو اندر کی تمام تلخیاں اور اضطراب الفاظ میں ڈھل جاتے ہیں۔ اس حالت میں گھر چھوڑنے کا دکھ آپ کی دانشوری کیا جانے صاحب۔ جب بھیڑ بکریوں کی طرح مریضوں اور ضعیفوں کو لا کر سانپوں اور موذی جانوروں کے بسیروں پر لگے خیموں میں ڈال دیا جائے، خواتین اور بچے گھنٹوں پیدل چل کر کہیں سستانے کے قابل ہو سکیں اور لوگ موت کا انتظار کرنے لگیں تو ہمیں لب کشائی کی اجازت پھر بھی نہیں ملے گی؟۔

یہاں لاہور جیسے شہر میں دن دیہاڑے تمام ذرائع ابلاغ کے سامنے آپ کے شیر سپاہیوں کی فائرنگ سے ہی دس افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور آپ ہمیں یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ جس علاقے میں صحافیوں کا داخلہ ممنوع ہے اور فائرنگ کی بجائے گولہ باری ہو رہی ہے وہاں بم اور میزائل بھی صرف پتہ پوچھ کر اور اس کی تصدیق کرنے کے بعد ہی پھٹتے ہیں۔ واہ صاحب، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔

اور گستاخی معاف، اگر آپ آپریشن کی مخالفت کو دہشت گردی کی حمایت تصور کرتے ہیں تو اس دانشوری کے گاہک کہیں اور تلاش کریں۔۔ ورنہ پوری دنیا میں قانون بنوا دیں کہ کہیں بھی دشمن کے ساتھ مذاکرات کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کاروائی کی زد میں آنے والے بے گناہوں کو انسان گردانا جائے گا۔ ذرا اور ہمت کریں تو یہ رہنما اصول امریکہ بہادر کے کان میں بھی پھونک دیں ورنہ اعلی حضرت گاہے مذاکرات اور پرامن انخلاء کے عشق میں مرے جاتے ہیں۔۔ کبھی قطر میں دفتر کھلواتے ہیں تو کبھی افغانوں کا منت ترلا کرتے ہیں۔

آپ کی دانشوری کی خدمت میں یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ ہجرت کی آزمائش کے دوسری طرف مواخات کا مضبوط سہارا اور مہاجرین کے ساتھ انصار کی اصطلاح بھی وجود میں آئی۔ لیکن یہاں اگر گرتے پڑتے لاکھوں بے گھر لوگوں تک کوئی پہنچتا ہے تو لے دے کے وہی آپ کے زیرعتاب، دینی جماعتوں کے تحت چلنے والی غیرسرکاری تنظیمیں جبکہ دن رات چیختی چنگھاڑتی دانش کو اس کاروبار میں خسارہ ہی خسارہ نظر آتا ہے۔ جی جی، سب جانتے ہیں ہم۔۔ بس ذرا فلم کا سیٹ مکمل ہو جائے اور کیمرہ فلیش وہاں پہنچ جائے، ان مظلوموں کے سب سے بڑے خیرخواہ بن کر آپ ہی کھڑے ہوں گے۔

اور یہ جو آپ نے خوب کہی کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لوگوں کو کچھ قربانی تو دینی ہو گی تو سہو یہ ہوا کہ آپ نے الفاظ کی ترتیب میں ملحوظ نہیں رکھا کہ "کچھ" کی جگہ قربانی کی بجائے لوگوں سے پہلے بنتی تھی۔ اصل میں تو تمام تر قربانی کچھ لوگوں کو ہی دینی ہو گی جو کہ دے بھی رہے ہیں۔ رہی حکومت اور آپ کی دانشوری تو اس کی بھی سنتے چلیں کہ دو بڑے صوبوں میں ان لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اس محیر العقول فیصلے پر تمام تر موسمی عقل و دانش دم سادھے اور ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔
سلام ہو گیا حضور
چلتے ہیں۔۔۔

3 تبصرے:

  1. بہت خوب لکھا ہے جنا ب ۔۔۔۔۔ اور وہ انصار والی بات بھی اس کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔ بنوں کے لوگوں نے واقعی انصار کا کام کیا ہے انہیں پاکستان کے ہیروز کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'