اتوار، 8 اکتوبر، 2017

ایک سادہ سوال

بات بہت سادہ  ہے
قرآن پر ایمان رکھنے والوں کے لیے   خاص طور پر قرآن کا سوال ہے
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (115) سورہ المؤمنون
"کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟"
سوال بالکل واضح ہے۔۔  ہر فرد سے ہے۔۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔۔
ہر کسی کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے
سوال کا پہلا حصہ خود ہی جواب ہے  کہ ہمیں  عبث اور فضول میں پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کا ایک طے شدہ مقصد ہے
اگر انسان کو عبث پیدا نہیں کیا گیا تو آخر اس کی زندگی کا مقصد ہے کیا؟ اس سوال کا جواب کون دے گا اور کس کا اعتبار کیا جائے گا؟
ظاہر ہے ایک مخلوق کے حوالے سے  اس سوال کا  سچا، معتبر اور ٹھیک ٹھیک  جواب خالق ہی دے سکتا ہے
تو اس سوال کا جواب ملے گا کہاں سے!!
ظاہر ہے اسی کے کلام سے جس نےانسان کو تخلیق کیا  اور کسی مقصد کے ساتھ دنیا میں بھیجا۔۔  کیونکہ اس کا کلام کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔۔
اور اسی کے رسول سے جس نے یہ کلام ہم تک نہ صرف پہنچایا بلکہ اپنی پوری زندگی کو اس کا عملی نمونہ بنا کر پیش کر دیا۔۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ہم نے کبھی شعوری کوشش کی؟ یا ہمیں اس سوال کا بھی علم تھا کہ نہیں؟
اس کا جواب تلاشنے کی راہ میں ہمارے لیے کوئی رکاوٹ ہے؟ وہ رکاوٹ خارجی ہے یا داخلی؟
کوئی مولوی ہمیں روک رہا ہے۔۔؟
کوئی حکومتی ادارہ  ہم پر نگران ہے؟
کوئی یورپی، امریکی دباؤ آڑے آ رہا ہے۔۔؟
ملازمت چھن جانے کا خوف دامن گیر ہے۔۔؟
جدید معاشرے میں نکِّو بن جانے کا خدشہ ہے۔۔؟

اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو کیا اب تک ہم نے فکرمندی سے اس جواب کی کھوج میں اتنی کوشش بھی کی ہے جتنی ہم اس وقت کرتے ہیں
جب ہمیں یہ پتہ کرنا ہو کہ ہمارے بچے کے علاج کے لیے کون سا ڈاکٹر سب سے بہتر رہے گا۔۔۔
یا اس کی تعلیم کے لیے کون سا سکول موزوں ترین ہے۔۔۔
یا میری ملازمت میں ترقی اور استحکام کے لیے میرے پاس کون سی ڈگری اور سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے اور میں کیسے حاصل کر سکتا ہوں۔۔۔
اب بھی اللہ کا کلام بآسانی ہماری دسترس میں ہے اور ہمارا منتظر ہے۔۔ سیرت رسول ﷺ روز روشن کی طرح ہمارے سامنے عیاں ہے۔۔
 ہم اس کے لیے منصوبہ بندی تو کر سکتے ہیں کہ مجھے اگلے ایک ماہ، چھے ماہ یا ایک سال میں اس سوال کا واضح جواب خود اپنی کوشش، غور و فکر اور دردمندی سے تلاش کرنا ہے کہ میرا مقصد حیات کیا ہے!!
اور اس منصوبہ بندی کو کم از کم اتنی توجہ تو دے سکتے ہیں جتنی ہم اپنی دفتری یا نجی زندگی میں ایک اہم منصوبے کو دیتے ہیں۔۔
نقشہ ترتیب دینا، منصوبے کا خاکہ تیار کرنا، وسائل/مسائل کا تجزیہ کرنا، متبادل حکمت عملی تیار کرنا، کام مکمل ہونے پر مکمل تجزیہ،  کام میں کمی اور کوتاہی کی نشاندہی کرنا، حاصل کردہ اہداف کا جائزہ لینا

یہ کام کوئی اور ہمارے لیے نہیں کرے گا۔۔ یہ قدم ہمیں ہی اٹھانا پڑے گا۔۔  اس سے ہزار گنا بہتر منصوبہ بندی اور زیادہ مشقت ہم اس عارضی زندگی کی بہتری کے لیے اٹھاتے ہیں  تو ہمیشہ کی زندگی میں فائدہ  کے لیے کیوں نہیں اٹھا سکتے۔۔

یاد رکھیے،  مقصدِ حیات کے  عمومی بیان کی تکرار  نہیں  بلکہ ٹھیک ٹھیک  الفاظ اور حوالے کے ساتھ کہ میرے خالق نے  فلاں جگہ میری زندگی کا مقصد اس طرح بیان کیا ہے۔۔ اور میرے نبی ﷺ نے یہ اس طرح سمجھایا ہے اور سیرت رسول ﷺ کے فلاں پہلو سے اس کی وضاحت اس طرح ہوتی ہے۔۔
یہ سوال ہر ایک فرد سے ہے۔۔ مجھ سے بھی اور آپ سے بھی
بہتر ہے کہ اس کا جواب آج ہی تلاش کر لیں ورنہ جس دن خالق خود سوال کرے گا اس دن کوئی جواب نہیں ہو گا۔۔

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ
"کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'