ہفتہ، 27 اکتوبر، 2007

وہ سلوک جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔۔۔

ابھی تو اہل ملتان انضمام کی ریٹائرمنٹ کا سوگ ہی نہیں منا پائے تھے کہ انہیں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں پاکستان کی شکست کا صدمہ بھی سہنا پڑ گیا ہے۔

فیض صاحب نے کہا تھا
ہم نے دل میں سجا لیے گلشن
جب بہاروں نے بے رخی کی ہے

ویسے تو کرکٹ میں فیض صاحب کا حوالہ آسانی سے ہضم ہونے والی بات نہیں ہے لیکن ملتان والوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ چونکہ مخلوط میراتھن، ورائٹی اینڈ فیشن شوز کی برکات اور ایوان صدر، گورنر ہاؤس، وزیر اعلی ہاؤس وغیرہ کی قربت کے فیض سے سینکڑوں میل ادھر ہیں، اس لیے چارو ناچار زندگی میں کچھ رنگ بھرنے کے لیے انہیں روزمرہ کے معمولی واقعات پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے اور انہی سے خوشیاں کشید کرنا پڑتی ہیں۔

جمعرات، 25 اکتوبر، 2007

"عزیز ہموطنو، شاعر اصل میں کہنا یہ چاہ رہا ہے کہ ۔۔۔۔۔"

چھٹی جماعت میں ہمیں اردو ماسٹر عبدالرزاق پڑھایا کرتے تھے۔ حصہ نظم پڑھاتے ہوئے وہ پہلے شعر کے مشکل الفاظ کے معنی اور نثری ترتیب بتاتے اور پھر آستین چڑھاتے ہوئے یوں گویا ہوتے، " دیکھو بھئی، شاعر اصل میں کہنا یہ چاہ رہا ہے کہ ۔۔۔۔۔" اور اس فقرے میں سارا زور 'اصل میں' پر ہوتا۔ پھر ماسٹر جی تو کمال جوش و خروش سے شعر کا اصل مطلب سمجھانے میں اور ہم اس بات پر غوروخوض میں مصروف ہو جاتے کہ اصل بات صرف ماسٹر جی کی سمجھ‍ میں ہی کبوں آتی ہے۔

بدھ، 24 اکتوبر، 2007

کراچی کے سیاسی کارکن کا المیہ




کراچی کے سیاسی کارکن جو کبھی جلسے جلوسوں کی تیاری میں مصروف نظر آتے تھے۔ یہاں سے وہاں ٹینٹ لگاتے، دریاں بچھاتے، کرسیاں ترتیب دیتے اور ساؤنڈ سسٹم سیٹ کرتے پھرتے تھے، آج کل ان کا زیادہ وقت کفن اکٹھے کرنے، زخمیوں کو اٹھانے، لاشوں کو کندھا دینے اور ان کی شناخت کرنے میں گزرتا ہے۔
مرحوم احمد ندیم قاسمی کی دعا اپنی جگہ، لیکن 12 مئی اور 18 اکتوبر کے دن کم سے کم کراچی میں تو حیات جرم اور زندگی وبال بن گئی تھی۔ اور یہ زندگی محض سانس لینے والے جانداروں کی نسبت سے نہیں ہے بلکہ یہ ان کی بات ہے جن کے لیے اقبال نے کہا تھا کہ

خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے