ہفتہ، 27 اکتوبر، 2007

وہ سلوک جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔۔۔

ابھی تو اہل ملتان انضمام کی ریٹائرمنٹ کا سوگ ہی نہیں منا پائے تھے کہ انہیں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں پاکستان کی شکست کا صدمہ بھی سہنا پڑ گیا ہے۔

فیض صاحب نے کہا تھا
ہم نے دل میں سجا لیے گلشن
جب بہاروں نے بے رخی کی ہے

ویسے تو کرکٹ میں فیض صاحب کا حوالہ آسانی سے ہضم ہونے والی بات نہیں ہے لیکن ملتان والوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ چونکہ مخلوط میراتھن، ورائٹی اینڈ فیشن شوز کی برکات اور ایوان صدر، گورنر ہاؤس، وزیر اعلی ہاؤس وغیرہ کی قربت کے فیض سے سینکڑوں میل ادھر ہیں، اس لیے چارو ناچار زندگی میں کچھ رنگ بھرنے کے لیے انہیں روزمرہ کے معمولی واقعات پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے اور انہی سے خوشیاں کشید کرنا پڑتی ہیں۔



ملتان والوں کی انہی محرومیوں کا اظہار تھا کہ چند برس پہلے کچہری فلائی اوور اپنی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد تک غیر علانیہ طور پر ایک فیملی پکنک پوائنٹ کا مقام اختیار کیے رہا۔ مجھے یاد ہے کہ شام ہوتے ہی یہاں لوگ اپنے بال بچوں سمیت اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے اور پل کی چڑھائیوں اور اترائیوں پر میلہ سا لگ جاتا۔
اسی طرح شاید یہ محلہ کڑی مصری کے انضمام سے نسبت کا اظہار ہے کہ ملتان میں ہونے والا ہر کرکٹ میچ اپنے انعقاد کے دس روز قبل ہی سےدفتروں اور تعلیمی اداروں وغیرہ میں موضوع بحث بن جاتا ہے اور عینی شاہدین کی پراسرار داستان گوئی اسے ملتان اور قرب و جوار میں ہفتہ عشرہ بعد تک گفتگو کا مرکز بنائے رکھتی ہے۔



پاکستانی ٹیم کے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ ابھی تو سیریز دو دو سے برابر ہوئی ہے اور فتح حاصل کرنے کا ایک موقع تو ان کے پاس موجود ہے۔ تاہم اگر صفر پر آؤٹ ہونے والے شاہد آفریدی اہل ملتان کے المیہ سے آگاہ ہوتے با کم از کم انہوں نے ابن انشاء کی 'اردو کی آخری کتاب' سے "سکندر اعظم" والا باب پڑھ رکھا ہوتا تو آفریدی کو یہ تو پتہ ہوتا کہ مدمقابل باؤلر سے انہیں کیا سلوک کرنا ہے۔۔۔ ۔۔ '(ظاہر ہے) وہی سلوک جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ‍ کرتے ہیں'

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'