بدھ، 24 اکتوبر، 2007

کراچی کے سیاسی کارکن کا المیہ




کراچی کے سیاسی کارکن جو کبھی جلسے جلوسوں کی تیاری میں مصروف نظر آتے تھے۔ یہاں سے وہاں ٹینٹ لگاتے، دریاں بچھاتے، کرسیاں ترتیب دیتے اور ساؤنڈ سسٹم سیٹ کرتے پھرتے تھے، آج کل ان کا زیادہ وقت کفن اکٹھے کرنے، زخمیوں کو اٹھانے، لاشوں کو کندھا دینے اور ان کی شناخت کرنے میں گزرتا ہے۔
مرحوم احمد ندیم قاسمی کی دعا اپنی جگہ، لیکن 12 مئی اور 18 اکتوبر کے دن کم سے کم کراچی میں تو حیات جرم اور زندگی وبال بن گئی تھی۔ اور یہ زندگی محض سانس لینے والے جانداروں کی نسبت سے نہیں ہے بلکہ یہ ان کی بات ہے جن کے لیے اقبال نے کہا تھا کہ

خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے


اب تو یہ کارکنان نعروں سے زیادہ گولیوں اور دھماکوں کی آواز کی شناخت کے عادی ہو گئے ہیں۔
جو نظریاتی کشمکش اور مزاحمت، سوچ اور سیاسی عمل میں نکھار پیدا کرتی تھی وہ تو کب کی اقتدار کے ایوانوں کو پیاری ہوئی۔ اب افتخار عارف لاکھ‍ کہتے رہیں کہ

دل نہیں ہو گا تو بیعت نہیں ہو گی ہم سے
لیکن یہاں کے پیران طریقت کے پاس تو ایسی ایسی کرامات موجود ہیں کہ ادھر نظر ملی، ادھر 'مری روح سے مری آنکھ‍ تک کسی روشنی میں نہا گئے'۔
تو ان حالات میں پروانہ وار قربانیاں دیتے ان کارکنان کے پاس روزانہ تازہ لاشیں اٹھانے کے سوا کیا چارہ رہا ہے، جنہیں ہر پل ساعت آئندہ کا خوف کھائے جا رہا ہے


عمر بھر کی کاہش بے غم کے خوگر
اس جہان بے بصر میں ہم کہاں تک
اپنے دل میں خاک ہوتی بستیوں کے دکھ‍ سمیٹیں
بین کرتی خواہشوں کی بھیڑ میں
روز اک تازہ لحد کی باس لے کر
کب تلک پھرتے رہیں گے دربدر
پیشتر اس سے کہ یہ ساری متاع بے ہنر
خاک میں مل جائے
ہم فرض کر لیں
یہ جہان بے بصر اک گلشن نوخیز ہے
اور اس کے طائران خوش نوا کی
رنگ برنگی بولیوں سے
لفظ کچھ‍ دامن میں چن کر
صفحہ خواب بشارت پر الٹ دیں ہم اگر
ڈھونڈ لیں پھر اس خزینہ گہر آباد سے
ایک حرف باریاب
اور پھر دست تمنا کے حوالے کر بھی دیں
ڈور یہ سانسوں کی تب شاید سلجھ‍ جائے مگر
موج فکر ساعت آئندہ ہم کو ایک پل بھی
چین لینے دے تو پھر۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'