ہفتہ، 14 مئی، 2022

ان دیوانے بوڑھوں کا مسئلہ آخر ہے کیا۔۔

اگر آپ 70، 80 سالہ بوڑھوں کو ایک دن میں کئی سو کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے دیکھیں اور یہ ایک دن ہفتے میں کئی بار آتا ہو۔۔ کوئی اپنے گھر سے سینکڑوں میل دور صحرا میں دور دراز دیہات کی خاک چھان رہا ہو اور کوئی دریاوں کے اندر ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں ناقابل رسائی کونوں کھدروں تک پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف ہو۔ کوئی اس کوشش میں ہو کہ 24 گھنٹے کے اندر اتنا کام کر لے جتنا ایک توانا جوان ایک ہفتے کے اندر بمشکل کر سکتا ہے تو ایک لمحے کے لیے تو آپ ٹھٹھک کر سوچیں گے ضرور کہ ان بوڑھوں کو کوئی بہت ہی زبردست قسم کی پریشانی ہے جو اس بڑھاپے میں بھی انہیں نچلا نہیں بیٹھنے دے رہی۔ اسی کشمکش میں آپ ان میں سے کسی سے ملاقات کی ہمت کر بیٹھیں گے تو حیرت سے تکتے رہ جائیں گے کہ ان  میں سے کسی کے چہرے پر، گفتگو میں، اشاروں کنایوں میں کہیں دور دور تک کسی  پریشانی، بےاطمینانی، محرومی، خوف اور خدشات کی پرچھائیں تک بھی دکھائی نہیں دیتی۔۔۔ پھر آخر  جھنجھلا کر آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ ان دیوانے بوڑھوں کا مسئلہ آخر ہے کیا۔۔۔۔


دلی کے درویشِ خدا مست سے اجمیر کے صوفی تک۔۔ کپورتھلہ کے وضعدار ارائیں سے نوشہرہ کے عالی ظرف پشتون تک۔۔   ان سب کے خاندانوں، پس منظر اور شخصیات میں جو بُعد تھا وہ تو آپ نے اس یک سطری تعارف میں محسوس کر لیا ہو گا لیکن کہانی ان سب کی گھوم پھر کر ایک ہی نکتے پر پہنچتی تھی۔۔۔  ان سب کی قدر مشترک  پھانسی کی کوٹھڑی میں خراٹوں کے ساتھ سونے والا وہ عالی کردار اور اجلا سیدزادہ تھا جس کے دیرینہ رفیق نے گواہی دی کہ 35  سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت ‘ اسلام اور اسوہ رسولﷺ سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔اور جس  کی زندگی اور سوچ ایسی کڑی سیدھی تھی کہ اس نے اسی رفیق کو  اپنے پان کھانے کی عادت پر اعتراض کے جواب میں کہا۔۔  یہ اسلام کے منافی تو نہیں ہے‘میں اسے تمھارے لیے تو نہیں چھوڑوں گا‘  ہاں خداکے لیے جب ضرورت ہو گی تو چھوڑدوں گا ۔۔۔
کردار، سوچ، نظریہ اور مقصد کی یہی  تڑپ اور قدر مشترک ان کو اور ان جیسے دوسرے بوڑھوں کو چٹختی ہڈیوں اور گلتے ماس کے ساتھ ایسے بھگائے پھرتی ہے کہ کیسے کیسے کڑے جوانِ رعنا کھڑے تھرتھراتے ہیں۔

اس قافلے  کی رہبری کے پہلےجانشین کا حال بھی سن لیں۔۔ کوئی اگر یہ کہے کہ بتاؤ وہ  کون سا ایک لفظ ہے جو میاں طفیل محمد کی پوری زندگی ،  کشمکش،  ذمہ داری، کردار، معاملات غرض کہ ہر باریک سے باریک نکتہ کا احاطہ کر سکتا ہو۔۔ تو اگر آپ نے انہیں، خواہ کچھ ہی دن، قریب سے دیکھا ہے تو آپ ایک لمحے کا توقف کیے بغیر جھٹ سے کہیں گے  ، نماز۔ اصل بات یہ ہے کہ  یہ نماز ہی کا  وقت تھا جب آپ نے انہیں محویت، محبت، عجز، اطمینان، خشیت اور فنا کے اعلی ترین مقام پر دیکھا۔ تو جب آپ نے  حضوری کے اس عالم میں، جسے ہم نماز کا نام دیتے ہیں، ان کا مشاہدہ کیا  تو یہی سوچا کہ جس شخص کے اپنے خالق کے ساتھ تعلق کا یہ عالم اور کیفیت ہے وہ اس کی کائنات ، مخلوق  اور اس کی طرف سے سونپی گئی ذمہ داریوں کے بارے میں کس طرح کوئی  غفلت یا بے انصافی کر سکتا ہے۔

دوسری جانشینی ایسے  درویش کی داستان ہے جس کا گھر  نہ دلی، نہ صفاہاں نہ سمرقند تھا۔۔ جس کی وسعتِ پرواز پاکستان، کشمیر، سوڈان، ترکی، چیچنیا  اور دنیا کے ہر اس خطے کا احاطہ کرتی تھی جہاں سے مسلم امت کے لیے کسی بھی خیر کی توقع ہونے لگتی تھی۔ جس کی رگوں میں قرآن کی آیتیں اور اقبال کے اشعار دوڑتے تھے اور جس نے کس یقین کے ساتھ پورے مجمع سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اب جنت میں ملاقات ہو گی۔

درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر  میرا نہ دلی نہ صفاہاں  نہ سمرقند


چوتھا درویش مٹھی میں دل لینے والا ایسا جادوگر تھا جس کے بارے میں ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ ایسے بولنے والے ہوتے ہیں جن کے آگے لفظ ہاتھ جوڑ کر اور صف بند ہو کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جن کو نہ کسی کی کج نگاہی کی پروا ہوتی ہے اور نہ کسی صلے کی تمنا۔۔  بڑے سے بڑے منہ پھٹ اینکروں سے لے کر اقتدار کی غلام گردشوں میں خود کو پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھنے والے   اپنی مرضی کو جواب سننے کی حسرت ہی رکھے رہے۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر صاف اور سیدھا بو ل بولنے والے سید منور حسن۔۔ 

چلیے،  اب ان میں سے کسی  کے عزمِ جواں اور غیرمتزلزل یقین کی بلندی کو  چھونے سے تو ہم رہے، لیکن کم از کم یہ دعا کر سکتے ہیں کہ ایسے بوڑھے ہر دور میں موجود رہیں۔ بس یہی صورت ہے کہ  اور کچھ نہیں تو ان کی داستانیں سننے اور قلمبند کرنے کی مزدوری ہم جیسوں کو ملتی رہے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'