منگل، 16 جنوری، 2018

ایک ادھورے فیصلے کی دوسری مؤدبانہ برسی


مجھے  اپریل 2009 کا وہ دن یاد ہے۔ غالبا دو یا تین تاریخ تھی۔ ہم لاہور دفتر میں  کام کر رہے تھے جب اچانک یہ خبر پھیلی کہ سوات میں طالبان کے ایک لڑکی کو سرعام کوڑے لگانے اور تشدد کرنے کی بہیمانہ اور سفاک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔  بس خبر  آنے کی دیر تھی۔ یہاں سے وہاں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پورے ملک میں کہرام برپا ہو گیا۔۔  چیخ پکار شروع ہو گئی۔ کف اڑاتی شہ سرخیوں اور بیانات کا سیلاب آ گیا۔  این جی اوز میدان میں کود پڑیں۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے لیا اور اپنی سربراہی میں تحقیقاتی بنچ قائم کر دیا۔حسبِ توفیق ہم نے بھی غم و غصہ کا اظہار کیا اور اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی یہ ویڈیو خبروں کا مرکز بنی رہی۔


یہ سوات میں اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے درمیان  امن معاہدہ طے پا جانے کے کچھ دن بعد کا ہی واقعہ تھا۔ بات آگے بڑھی تو  سوات کے امن معاہدے کو ختم کرنے اور فوجی آپریشن شروع کرنے کا مطالبہ ہر طرف سے سامنے آنے لگا۔  بہرحال آخرکار سوات میں تمام معاہدے کالعدم قرار دے دئے گئے اور آپریشن 'راہِ نجات' کا آغاز کر دیا گیا  جس سے لاکھوں لوگ بےگھر ہوئے۔ ہزارہا خاندانوں کی زندگی ہمیشہ کے لیے  بدل گئی۔تاریخ کی ایک بڑی داخلی ہجرت وقوع پذیر ہوئی۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوا کہ  واقعے کے فوری بعد سے ہی  مختلف حکومتی شخصیات نے، جن میں کمشنر مالاکنڈ، صوبائی حکومت، سیکرٹری داخلہ شامل تھے، اس چیخ پکار کے وقت بھی ویڈیو کو جعلی قرار دیتے  ہوئے کہا تھا کہ یہ سوات میں امن کے عمل کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کرائے کے اداکاروں کے ذریعے تیار کی گئی ویڈیو ہے جس کے پیچھے انسانی حقوق کی کارکن ثمر من اللہ کا ہاتھ ہے۔ بعد ازاں اس ویڈیو میں کام کرنے والے اداکاروں نے بھی تسلیم کر لیا کہ ان کو ایک این جی او کی طرف سے اس کام کا بھاری معاوضہ دیا گیا تھا۔ حتٰی کہ ویڈیو میں دکھائے گئے بچوں کو بھی پیسے دیے گئے تھے۔





اس ویڈیو کی تخلیق کار/ہدایت کار اور تمام تر سرگرمی کی روحِ رواں ثمر من اللہ نے مختلف ٹی وی شوز میں دعویٰ کیا تھا کہ کوڑے کھانے والی لڑکی ضلع سوات کی تحصیل 'کبل' کے گاؤں 'کالا کلی' کی سترہ سالہ 'چاند بی بی' ہے۔ جس کو طالبان جنگجہو سے شادی نہ کرنے پر کوڑے مارے گئے ہیں۔

2016 جنوری  میں کئی سال کی سماعت کے بعد بالآخر سپریم کورٹ نے اپنے اذخود نوٹس کا فیصلہ دے دیا تھا  اور  سوات کی کوڑے لگانے والی ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا۔   اس فیصلے کی نمایاں بات یہ تھی کہ بس ویڈیو جعلی قرار دینے سے آگے بڑھنے کی ہمت سپریم کورٹ بھی نہ کر سکی۔ 




جس ویڈیو کی بنیاد پر پوری دنیا میں پاکستان پر لعن طعن کی گئی، لاکھوں زندگیاں دربدر ہو گئیں، حویلیوں میں بستے لوگ ہاتھ میں برتن پکڑے کھانے کی قطار میں آ کھڑے ہوئے، بس اس کو جعلی قرا ردے کر یہ باب بند کر دیا گیا۔ اس کو کس نے بنایا، کس نے پھیلایا، کس نے اس کی بنیاد پر کیا مقاصد حاصل کیے یہ سب کچھ کھلا راز ہونے کے باوجود کسی کو اس پر بات کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔   قرار واقعی سزا تو بہت دور کی بات ہے، حتٰی کہ ازخود نوٹس لینے والے چیف جسٹس صاحب کو بھی اس ویڈیو کے ذمہ داران  کے تعین تک کے حوالے سے کوئی ہدایت جاری نہ کر سکے ۔ اس ڈرامے کی 'ماسٹر مائنڈ' موصوفہ آج بھی نام نہاد دانشور کی حیثیت سے اپنی دانش بکھیرتی پھر رہی ہیں اور ان کے ہمنوا طبقے کو بھی ان کے اس شرمناک کردار پر کوئی افسوس نہیں ہے۔

عوام کو مبارک ہو کہ اس ماہ اس فیصلے کی دوسری برسی تھی۔





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'