جمعرات، 5 فروری، 2015

پہلے اور دوسرے اور تیسرے کی موت

 یہ تب کی بات ہے جب میں مر چکا تھا۔
درندے مجھے بھنبھوڑ رہے تھے لیکن میں الگ بیٹھا حیرانی سے اپنے لاشے کو دیکھ رہا تھا جو کئی ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا اور شیطان میرے پہلو میں کھڑا قہقہے لگا رہا تھا۔
موت کا یہ تجربہ عجیب ہی تھا۔ ویسے تو موت سے میں کئی مرتبہ دوچار ہوا تھا لیکن  ایسی  بے اذیت موت مجھے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔

شیطان کو نظر انداز کرنے کے لیے میں اپنی لاش کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے شمار کیا۔ میری لاش کے 63ٹکڑے ایک طرف پڑے تھے۔ بالکل تازہ۔۔ ابھی ابھی امام بارگاہ سے پہنچے ہوئے۔۔ ہر ٹکڑے پر میرے نام کی مہر لگی ہوئی۔ انہیں تو مردہ خانے میں بھی نہیں رکھا جا سکتا تھا۔۔۔۔اور دوسری طرف 132 ٹکڑے پڑے تھے۔ چھوٹے اور لاتعداد۔ سکول کے یونیفارم میں ملبوس۔۔ میں نے سوچا ظالموں نے میری ایک ہی لاش کے ٹکڑے بھی الگ الگ رکھے ہیں۔ مجھے اس سوچ پر ہنسی سی آ گئی۔


میں نے ذہن کی تاریکیوں میں دور تک جھانکا اور زندگی کا کوئی حوالہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔
ٹھیک سےتو  یاد نہیں لیکن جب گدھ زندہ انسانوں کے اوپر منڈلانے لگے تھے، باغیچے کی بیلوں سے سانپ نکلنے لگے تھے، نامانوس ہریالی ہر طرف سر اٹھانے لگی تھی،  جب باہر سے آنے والے بستی کے لوگوں  کی زبانیں گنگ ہونے لگی تھیں، آنکھیں رہ رہ کر دور جنگلوں کی طرف اٹھنے لگی تھیں۔ رونق بڑھتی چلی جا رہی تھی۔  بستی میں تابوت بنانے والوں نے دکانیں کھول لی تھیں اور بستی کے بڑوں اور  محافظوں نے ان سے یارانے گانٹھ لیے تھے،  بے مقصد قہقہے اس بازار میں گونجنے لگے تھے۔  اس کے بعد سے سب کچھ بدل سا گیا تھا۔ بے معنی سے خدشات ہر آنکھ میں  جھلکنے لگے تھے۔ غیر محسوس آہٹیں ہر طرف سنائی دینے لگی تھیں۔ سوال کرنے پر پابندی لگا دی گئی ۔ پھولوں، رنگوں اور خوشبو کی کہانیاں اپنا دامن سمیٹ کر رخصت ہو گئيں۔


میں نے اپنی گزشتہ اموات  کا حساب یاد کرنے کی کوشش کی۔ یہ میری پرانی بری عادت تھی۔۔  ہر موت کے بعد  حساب لگانا اورپرانے  اعداد و شمار کا میں شامل کرنا۔۔۔

ایک دفعہ 127 یا شاید 129۔۔ لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ تب تو مجھے ٹھیک سے شمار بھی نہیں کیا گیا تھا۔۔ کیونکہ وہ والی موت متنازعہ ٹھہری تھی۔ تب  میرا نام مسیحی  اور بھنگی تھا  اور بستی کے بڑے  طے نہیں کر پائے تھے کہ یہ والی موت مردہ خانے کے حساب میں لکھی جائے یا نہیں۔۔

پھر ایک دفعہ 69 یا 80۔۔ اتنا حساب یاد رکھنا بھی تو آسان نہیں ہے۔۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ تب تابوت ایجاد نہیں ہوا تھا اور لاشہ بھی مختصر تھا سو میرے  سب ٹکڑے کھردری چارپائیوں پر بکھیر دیے گئے تھے۔ تب مجھے بھی زیادہ فکر نہیں ہوئی تھی کیونکہ بڑوں  نےکہا تھا کہ یہاں والی  موت اتنی تکلیف دہ نہیں ہوتی۔


درندوں کے شوروغل نے پھر مجھے اپنے لاشے کی طرف متوجہ کر دیا۔ شیطان اب اپنے چہرے پر ایک دلآویز مسکراہٹ سجائے کھڑا تھا۔
میں یاد کر رہا تھا کہ سب کچھ کیسے بدل گیا۔۔  عجیب کایا کلپ تھی۔انسانوں کی شکلیں دیکھتے دیکھتے  بدلنے لگی تھیں۔ بستی والوں نے گھروں میں بھیڑئیے پالنا شروع کر دیے تھے۔  شامیں زیادہ گہری ، خاموش اور اندھیری ہونے لگیں۔ راتوں کا سناٹامہیب  تر ہو چلا تھا۔

میں اپنی سوچ میں گم تھا اور شیطان اب ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک معنی خیز زہریلی اٹھکیلی تھی۔مجھے گمان گزرا کہ یہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔

"تم یہ سب جانتے ہو نا!" میں نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
"سوچ کا سفر جاری رکھو"اپنی ہنسی روکتے ہوئے  میرا سوال نظر انداز کر کے اس نے میرا شانہ تھپتھپایا۔

دفعتا میرے ذہن میں خیال آیا اور میں نے ہڑبڑا کر  کہا "نہیں، نہیں"
"مجھے تو ابھی واپس پہنچنا ہے، کئی اور موتیں میری منتظر ہیں  جنہیں مجھے گلے لگانا ہے۔۔ اور میرے بغیر تو وہ سب لاوارث ٹھہریں گی۔"
پھر شیطان کو قہقہے لگاتا چھوڑ کر میں تو کاروبار حیات (یا موت) کی طرف واپس چل پڑا۔

اب جو پلٹ کے آئی ہے اس دم رخ حیات سے
کوئی نقاب کھینچ لے، مجھ میں تو حوصلہ نہیں۔۔۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں تبصرہ کرنے کے لیے صرف ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے 'اخلاقیات'