اتوار، 20 جولائی، 2014

جذبوں کی سوداگری

پھر یوں ہوا کہ ہر طرف کھیل کے میدان سج گئے، رنگ، قہقہے اور روشنیاں بکھرنے لگیں، میں نے بھی دنیا بھر کے کھلاڑیوں کی شان میں قصیدے پڑھے اور ان کے ملکوں کے جھنڈے اٹھائے۔ ان کے لیے نعرے لگائے اور تالیاں پیٹیں۔
کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ کھیل کی کوئی سرحد نہیں ہوتی

جمعرات، 10 جولائی، 2014

چائے کی پیالی میں طوفان

اب بات 'رمضان بمقابلہ رمدان' اور 'خدا حافظ بمقابلہ اللہ حافظ' کی دانشوری کی سالانہ تکرار پر ہی آ ٹھہری ہے تو ہمارے لیے ان تمام دانشور حضرات کی پاکستانیت اور پاکستانی ثقافت اور روایات سے وابستگی قابل رشک ہے جو اس رواج پر فکرمند اور بے چین ہوئے پھرتے ہیں لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے یہ تمام اہل علم حضرات و خواتین اپنی ہی قومی زبان کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور قومیت کا رونا رونے کے لیے ایک غیرملکی زبان کو منتخب کیا جاتا ہے۔ [ویسے مزے کی بات یہ کہ جس زبان میں یہ سب واویلا کیا جاتا ہے خوداس زبان والے بھی رمضان کو 'رمدان' ہی لکھتے ہیں۔]

یہ خوب رہی صاحب، آپ خود اپنی تمام تر افلاطونیت انگریزی میں جھاڑیں اور نزلہ گرے ان پر جو محض چند الفاظ کو عربی تلفظ سے ادا کر رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں!!