اب بات 'رمضان بمقابلہ رمدان'
اور 'خدا حافظ بمقابلہ اللہ حافظ' کی دانشوری کی سالانہ تکرار پر ہی آ ٹھہری ہے تو
ہمارے لیے ان تمام دانشور حضرات کی پاکستانیت اور پاکستانی ثقافت اور روایات
سے وابستگی قابل رشک ہے جو اس رواج پر فکرمند اور بے چین ہوئے پھرتے ہیں لیکن حیرت
کا مقام یہ ہے کہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے یہ تمام اہل علم حضرات و خواتین اپنی
ہی قومی زبان کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور قومیت کا رونا رونے کے لیے ایک غیرملکی
زبان کو منتخب کیا جاتا ہے۔ [ویسے مزے کی بات یہ کہ جس زبان میں یہ سب واویلا کیا جاتا ہے خوداس زبان والے بھی رمضان کو 'رمدان' ہی لکھتے
ہیں۔]
یہ خوب رہی صاحب، آپ خود اپنی تمام تر
افلاطونیت انگریزی میں جھاڑیں اور نزلہ گرے ان پر جو محض چند الفاظ کو عربی تلفظ
سے ادا کر رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں!!